قید میں چراغِ عشق:
دنیا کے ہر دور میں کچھ دل ایسے پیدا ہوتے ہیں جو زمانے کے شور سے اوپر، صداقت کی ایک الگ ہی دھن سنتے ہیں۔ ان کے لیے جیل کی دیواریں محض اینٹوں کا قفس نہیں ہوتیں بلکہ خاموش مصلّے ہوتے ہیں جہاں عشق اپنے راز کہتا ہے۔ ان کے قدموں کے نیچے زمین نہیں، تاریخ لرزتی ہے۔ یہی چراغِ عشق ہیں جو بجھائے نہیں بجھتے قید کیے نہیں جا سکتے۔ غالبؔ نے کہا تھا: قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں یہ شعر ایک عاشق کے مقدر کی تشریح ہے۔ جب کوئی انسان عشقِ حقیقی یا عشقِ صداقت کی راہ اختیار کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اب زندگی اور قید ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ قید صرف وہ نہیں جو لوہے کے سلاخوں سے بنتی ہے بلکہ وہ بھی جو معاشرے کی خاموشیوں سے بنتی ہے۔ دنیا ہمیشہ ان لوگوں سے خوف کھاتی ہے جو حق کی بات کہتے ہیں۔ ان کے قلم کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے، ان کے الفاظ کو بغاوت کہا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو عشق کی راہ پہ نکلتا ہے، وہ بغاوت نہیں کرتا وہ اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔ مگر کمزور زمانے اسے “خطرہ” کہہ کر بند کر دیتے ہیں۔ فیضؔ نے اسی کی...