قید میں چراغِ عشق:

دنیا کے ہر دور میں کچھ دل ایسے پیدا ہوتے ہیں جو زمانے کے شور سے اوپر، صداقت کی ایک الگ ہی دھن سنتے ہیں۔ ان کے لیے جیل کی دیواریں محض اینٹوں کا قفس نہیں ہوتیں بلکہ خاموش مصلّے ہوتے ہیں جہاں عشق اپنے راز کہتا ہے۔ ان کے قدموں کے نیچے زمین نہیں، تاریخ لرزتی ہے۔ یہی چراغِ عشق ہیں  جو بجھائے نہیں بجھتے  قید کیے نہیں جا سکتے۔





غالبؔ نے کہا تھا:

 قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

یہ شعر ایک عاشق کے مقدر کی تشریح ہے۔ جب کوئی انسان عشقِ حقیقی یا عشقِ صداقت کی راہ اختیار کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اب زندگی اور قید ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ قید صرف وہ نہیں جو لوہے کے سلاخوں سے بنتی ہے بلکہ وہ بھی جومعاشرے کی خاموشیوں سے بنتی ہے۔

دنیا ہمیشہ ان لوگوں سے خوف کھاتی ہے جو حق کی بات کہتے ہیں۔ ان کے قلم کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے، ان کے الفاظ کو بغاوت کہا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو عشق کی راہ پہ نکلتا ہے، وہ بغاوت نہیں کرتا  وہ اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔ مگر کمزور زمانے اسے “خطرہ” کہہ کر بند کر دیتے ہیں۔


فیضؔ نے اسی کیفیت کو محسوس کرتے ہوئے لکھا تھا:

 متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے

کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے

یہ وہی لہجہ ہے جو ہر قید میں گونجتا ہے۔ جب چراغِ عشق جلتا ہے تو ظلم کے ایوانوں میں اندھیرا پھیل جاتا ہے۔ کیونکہ عشق کا نور کسی تخت یا قید سے نہیں ڈرتا  وہ اپنی حرارت سے دیواروں کو موم کر دیتا ہے۔

قید میں بیٹھا عاشق جب خاموش ہوتا ہے تو دنیا سمجھتی ہے کہ وہ ٹوٹ گیا۔ لیکن درحقیقت وہ اپنی خاموشی میں پوری دنیا سے بات کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے پاس نہ اخبار ہوتے ہیں نہ مائیک، مگر اس کے دل کی آواز تاریخ لکھ دیتی ہے۔


اقبالؔ نے کہا تھا:

 ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

یہ “امتحانِ عشق” ہی تو ہے  کہ قید بھی نصیب ہو تو شکر، تنہائی بھی ملے تو ذکر۔ ایسے انسان کے لیے دنیاوی سزا نعمت بن جاتی ہے، کیونکہ وہ اپنے محبوبِ حقیقی سے قریب تر ہوتا ہے۔

اور یہی وہ نکتہ ہے جسے عام لوگ سمجھ نہیں پاتے۔ وہ سوچتے ہیں کہ قید میں بیٹھا شخص کمزور ہے، لیکن دراصل وہ سب سے طاقتور ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے اندر یقین کی ایک ایسی روشنی جل رہی ہوتی ہے جسے بجھانا ممکن نہیں۔

عشق وہ شعلہ ہے جو سب کچھ جلا دیتا ہے مگر خود جلنے سے انکار کرتا ہے۔” یہی چراغِ عشق ہے  جو قید میں جلتا ہے، مگر مایوس نہیں ہوتا۔

دنیا کی تاریخ میں ہر صداقت پسند شخص کو قید کا سامنا ہوا۔ سقراط سے لے کر منصور حلاج تک، ہر اس روح کو جیل ملی جس نے جھوٹے خداؤں کو للکارا۔ لیکن ان کی قید دراصل ان کی آزادی تمنصور نے کہا تھا “انا الحق” — اور تخت والوں نے سمجھا کہ یہ۔


فیضؔ کے زمانے میں بھی یہی ہوا، اور آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ فیضؔ کی نظم “ہم دیکھیں گے” صرف ایک نعرہ نہیں، ایک پیش گوئی ہے۔

 لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے

یہ “وعدہ” کسی سیاسی انقلاب کا نہیں، بلکہ باطنی بیداری کا وعدہ ہے۔ کہ ایک دن حق بولنا جرم نہیں رہے گا عشق شرمندگی نہیں بنے گا اور قید تقدیس بن جائے گی۔


غالبؔ نے کہا تھا:

 ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کھلا

یہ دنیا کی منافقت کا سب سے حسین بیان ہے۔ لوگ جنہیں نجات دہندہ سمجھتے ہیں اکثر وہی ظلم کے نگران ہوتے ہیں۔

اور جنہیں “باغی” کہا جاتا ہے دراصل وہی قوم کے اصل مصلح ہوتے ہیں۔


فیضؔ کے بعد جب جالبؔ نے لکھا:

 میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

تو یہ صرف نظم نہیں تھی، یہ چراغِ عشق کی للکار تھی۔ وہی چراغ جو ہر دور کی جیل میں جلتا ہے، جو ہر مظلوم کے دل میں روشنی بنتا ہے۔


عشق کا سفر ہمیشہ تنہائی سے گزرتا ہے۔ تنہائی میں انسان خود سے ملاقات کرتا ہے، اپنی کمزوریوں اور طاقتوں کو پہچانتا ہے۔

ایک عاشق جب قید میں ہوتا ہے، تو دراصل وہ آزاد ہوتا ہے  کیونکہ باہر کے لوگ خواہشات کے غلام ہیں، اور وہ یقین کا بادشاہ۔


اقبالؔ کے الفاظ میں:

 بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب

اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی

اسی آزادی کے لیے عشق قید برداشت کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ سچائی کی قیمت ہمیشہ تنہائی ہے۔ لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ یہی تنہائی ایک دن دنیا بدل دیتی ہے۔ قید میں چراغِ عشق کی روشنی دھیمی ضرور ہوتی ہے مگر پائیدار ہوتی ہے۔

باہر کے چراغ ہوا کے رحم و کرم پر ہیں مگر اندر کا چراغ یقین کے مرکز سے جلتا ہے۔ یہی وہ روشنی ہے جس سے تاریخ لکھی جاتی ہے۔ جب دنیا سو رہی ہوتی ہے، قید کے اندر بیٹھا عاشق دعا کر رہا ہوتا ہے کہ "یا رب، میری قید قوم کے لیے روشنی بن جائے۔"

پھر  یہ دعا تاریخ کے سینے میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتی ہے۔


فیضؔ نے ایک بار لکھا تھا:

 یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

یہی احساس قید کے اندر بھی ہوتا ہے۔ کہ جو صبح دکھائی دے رہی ہے، وہ مکمل روشنی نہیں۔ لیکن پھر بھی امید باقی رہتی ہے۔   عشق کا چراغ اسی امید پر جلتا ہے کہ “یہ رات کتنی بھی طویل ہو مگر صبح آ کر رہے گی۔”


غالبؔ کا ایک اور شعر گویا قید میں بیٹھے ہر انسان کی زبان بن جاتا ہے:

 دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں


عشق والے روتے نہیں، پگھلتے ہیں  اور جب پگھلتے ہیں تو دنیا کا زہر امرت بن جاتا ہے۔ان کے آنسو شکست نہیں، دعا ہوتے ہیں۔


قید میں چراغِ عشق کی لو وقت کے چہروں پر طنز کرتی ہے۔ یہ کہتی ہے کہ تم جسم قید کر سکتے ہو، مگر خواب نہیں۔ تم آواز روک سکتے ہو، مگر خیال نہیں۔ تم دیواریں بنا سکتے ہو، مگر روشنی کو زنجیر نہیں ڈال سکتے۔


اقبالؔ نے کہا تھا:

 اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ہے حکمِ اذاں، لا الٰہ الا اللہ

یہی وہ صدا ہے جو ہر قید کے اندر سے آتی ہے  کہ میں قید میں ہوں، مگر سچ کے خلاف خاموش نہیں۔ میں بند ہوں، مگر بجھا نہیں۔


اور آخر میں وہی بات جو ہر عاشق کی وصیت بن جاتی ہے:  "یہ قید اگر میرے عشق کا امتحان ہے، تو میں ہر بار اسی راہ کو چنوں گا۔ کیونکہ قید میں رہ کر بھی میں آزاد ہوں  کہ میں نے سچ کا دامن تھاما ہے۔"


چراغِ عشق کبھی بجھتا نہیں۔ یہ قید میں ہو تو دعا بنتا ہے جلاوطنی میں ہو تو صدا بنتا ہے اور ظلم کے مقابل ہو تو انقلاب کی پہلی چنگاری۔ دنیا سمجھتی ہے کہ قید چراغ کو بجھا دیتی ہے مگر تاریخ بتاتی ہے کہ ہر قید کے بعد، ایک نئی صبح جنم لیتی ہے۔


فیضؔ کے الفاظ میں:

 ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے

جو دل پہ گزرتی ہے، رقم کرتے رہیں گے


اور غالبؔ کے لہجے میں بس اتنا کہنا کافی ہے:

 نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا


یہی تو عشق ہے  کہ قید میں بھی روشنی بانٹنا، ظلم میں بھی مسکرانا، اور تاریکی میں بھی کہنا چراغِ عشق بجھا نہیں، ابھی جل رہاہے۔

Comments

Popular posts from this blog

ٹیکنالوجی کے پیچھے کی طاقت: کیا چین ایک نیا مہرہ ہے؟

ٹیکنالوجی انسانوں کے برتاؤ کیسے بدل رہا ہے؟

پنجاب پولیس کا عظیم الشان آپریشن، برآمدگی میں تاریخ رقم!