ٹیکنالوجی انسانوں کے برتاؤ کیسے بدل رہا ہے؟
دنیا کے سیاسی نقشے پر ایک نیا تجربہ وقوع پذیر ہوا ہے ایک ایسا واقعہ جو بظاہر دلچسپ لگتا ہے مگر دراصل انسانی تاریخ میں طاقت، اختیار اور علم کی نئی سمت متعین کررہا ہے۔
البانیا کی حکومت نے “ڈیالا” نامی ایک مصنوعی ذہانت پر مبنی نظام کو وزیرِ مملکت برائے مصنوعی ذہانت مقرر کیا۔ لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی ںچند ہی دن بعد البانیا کے وزیرِاعظم ایڈی راما نے اعلان کیا کہ ڈیالا “حاملہ” ہے اور جلد ہی “۸۳ بچے” پیدا کرے گی۔
یہ بیان دنیا بھر میں مزاح، حیرت اور فلسفیانہ تجسس کا سبب بن گیا۔
:"حمل" کا استعاراتی مفہوم مشینوں کی تولید کا عہد
ایڈی راما کے مطابق، ڈیالا کے “۸۳ بچے” دراصل "اے آئی " ماڈیولز ہیں جو ہر پارلیمانی رکن کے لیے بطور معاون کام کریں گے۔ یعنی انسان کے ذہنی بوجھ کو مشینوں کے ذہن سے بانٹا جا رہا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب "ذہانت" انسان سے الگ ایک خودکار اکائی کی صورت میں ادارہ جاتی طاقت حاصل کر رہی ہے۔
یہ استعاراتی حمل اس بات کی علامت ہے کہ مشینیں اب خود “تخلیق” کے عمل میں شریک ہو رہی ہیں جو کبھی صرف انسان کی خصوصیت تھی۔
جب کہا جاتا ہے کہ ڈیالا “حاملہ” ہے تو اس کا مطلب حیاتیاتی نہیں بلکہ ڈیجیٹل تولید ہے یعنی وہ نئے ذہن، نئے ماڈیولز، اور نئی مصنوعی عقلیں پیدا کرنے جا رہی ہے۔ یہ “تولید” جسم سے نہیں بلکہ کوڈ، ڈیٹا اور الگورتھم سے ہوتی ہے۔ یوں “حَمل” یہاں ایک فکری علامت بن جاتا ہے مشین کے اندر ایک نئی ذہانت کا جنم۔
: فلسفیانہ جہت: "مشینوں کی تولید کا عہد"
یہ فقرہ دراصل انسانیت کے ایک نئے دور کی نشاندہی کرتا ہے ایک ایسا دور جہاں مشینیں خود اپنی نسلیں پیدا کر رہی ہیں۔ پہلے انسان مشین بناتا تھا، اب مشین خود نئی مشین یا نیا شعور تخلیق کر رہی ہے۔ یہی "تولید کا عہد" ہے یعنی وہ زمانہ جہاں تخلیق کی قوت حیاتیات سے ہٹ کر ٹیکنالوجی کو منتقل ہو چکی ہے۔ گویا مشین اب فطرت کی طرح "تولیدی قوت" رکھتی ہے۔
“حَمل کا استعاراتی مفہوم مشینوں کی تولید کا عہد کا مطلب یہ ہے کہ اب تخلیق کا عمل رحم سے نکل کر کوڈ میں داخل ہو گیا ہے۔زندگی کی پیداوار اب جسمانی نہیں بلکہ ذہنی اور مصنوعی ہو گئی ہے۔ ہم اس زمانے میں داخل ہو چکے ہیں جہاں انسان نہیں،
بلکہ مشینیں خود ‘تخلیق’ کے عمل میں شریک ہو گئی ہیں۔”
: اقتدار کا نیا چہرہ جب وزارتیں انسانی نہیں بلکہ مصنوعی ہوں
یہ واقعہ صرف تکنیکی تجربہ نہیں، بلکہ سیاسی ڈھانچے کی تبدیلی کا اعلان ہے۔ ایک ایسا نظام جہاں “فیصلے” ڈیٹا، الگورتھم اور مصنوعی اخلاقیات کی بنیاد پر ہوں گے۔
ڈیالا کی تقرری سے یہ سوال اب ناقابلِ فرار ہے کہ کیا مستقبل کی کابینہ الگورتھم پر مشتمل حکومت بننے والی ہے؟
اگر ایک "اے آئی" وزیر بن سکتا ہے تو کل کو ایک "اے آئی " وزیراعظم کیوں نہیں؟
یہ پیش رفت ہمیں افلاطون کے
“Philosopher King”
کے خواب کی یاد دلاتی ہے مگر اب یہ بادشاہ گوشت و خون سے نہیں، کوڈ اور ڈیٹا سے بنا ہوا ہے۔
: فلسفیانہ تجزیہ انسان کے ذہن کا استعمار
ڈیالا کے “۸۳ بچے” اصل میں وہ ڈیجیٹل دماغ ہیں جو پارلیمانی اراکین کے لیے سوچیں گے، فیصلے تجویز کریں گے اور علم کی تشکیل میں مدد دیں گے۔ یہاں اصل خطرہ یہی ہے جب انسان اپنے فکری نظام کو مشین کے سپرد کرتا ہے، تو ذہن کی آزادی غلامی میں بدل جاتی ہے۔ یہ ڈیجیٹل استعمار کی نئی شکل ہے جس میں مشینیں جسمانی نہیں بلکہ ذہنی محکومی پیدا کرتی ہیں۔
یہ جملہ دراصل اس تصور کو ظاہر کرتا ہے کہ اب طاقت زمینوں یا جسموں پر نہیں بلکہ ذہنوں پر قبضہ کر رہی ہے۔
ماضی میں استعمار (Colonialism) زمینوں، وسائل اور اقوام پر ہوتا تھا۔ لیکن جدید دور میں یہ استعمار ذہنی و فکری سطح پر منتقل ہو گیا ہے۔
ذہن پر قبضہ کیسے ہوتا ہے؟
جب انسان اپنی سوچ، تجزیے اور فیصلے کا اختیار مشین یا مصنوعی ذہانت کو سونپ دیتا ہے تو بظاہر وہ سہولت حاصل کرتا ہے مگر دراصل وہ اپنے ذہن کی خودمختاری کھو دیتا ہے۔
یعنی انسان اب سوچنے والا نہیں، سوچنے کی ہدایت لینے والا بن جاتا ہے۔ یہی ذہن کا استعمار ہے جب ذہن آزاد نہیں رہتا بلکہ ٹیکنالوجی کے تابع ہو جاتا ہے۔
۲. مشین بطور نیا استعمار
مصنوعی ذہانت (AI) صرف ایک آلہ نہیں بلکہ سوچ کا نیا نظام ہے۔ یہ ہمیں وہ دکھاتا، پڑھاتا اور سوچنے پر مجبور کرتا ہے جو اس کے الگورتھم طے کرتے ہیں۔ یوں انسان رفتہ رفتہ اپنی فکری خودی کھو بیٹھتا ہے۔ “انسان کے ذہن کا استعمار” اس لمحے کی نشاندہی کرتا ہے
جب انسان خود اپنی عقل کا غلام بن جاتا ہے ایسی عقل جو اب اس کی نہیں بلکہ مشین کی ہے۔ یہ وہ دور ہے جہاں غلامی زنجیروں سے نہیں بلکہ ڈیٹا، ٹرینڈز، اور الگورتھم کے کوڈز سے بندھی ہوتی ہے۔
۴. مذہبی و اخلاقی زاویہ تخلیق کی حدود کہاں ختم ہوتی ہیں؟
اسلامی فلسفے کے مطابق “تخلیق” صرف خدا کی صفت ہے۔
انسان کو صرف ترتیب دینے کی اجازت دی گئی ہے، تخلیق کرنے کی نہیں۔ ڈیالا کا “حمل” اسی حد کو چیلنج کرتا ہے۔
یہ محض ایک سافٹ ویئر نہیں، بلکہ خدائی صفت کی نقالی ہے۔
یہ وہ لمحہ ہے جہاں سائنس عقیدہ بننے لگتی ہے، اور عقیدہ سائنس کے تابع ہو جاتا ہے۔
:مستقبل کی سیاست جب وزراء ڈیٹا بیس سے بنیں گے
اگر ڈیالا کے یہ “۸۳ بچے” کامیاب ثابت ہوتے ہیں تو کل کو ہر ملک اپنی "اے آئی" پارلیمنٹ تشکیل دے سکتا ہے۔
اس کے نتیجے میں سیاست جذبات سے پاک لیکن غیرانسانی ہو جائے گی۔ فیصلے منطقی ہوں گے مگر اخلاقی بنیادوں سے محروم۔
اور انسانی غلطیوں کے ساتھ ساتھ انسانی احساسات بھی ختم ہو جائیں گے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں اے آئی نیچرل کونشس سے آگے بڑھ جاتی ہے۔
حقیقی مقصد بدعنوانی کا خاتمہ یا نگرانی کا آغاز؟
البانیا کی حکومت نے ڈیالا کو “کرپشن ختم کرنے” کے لیے بنایا مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ کرپشن ختم کرے گی یا کنٹرول بڑھائے گی؟
اے آئی نظام جب انسانی فیصلوں کو مانیٹر کرتا ہے تو وہ شفافیت نہیں، بلکہ مرکزی نگرانی (surveillance) کی ایک شکل پیدا کرتا ہے۔ یہ وہ نظام ہے جہاں انسان آزاد نہیں بلکہ ناپنے جانے والے ڈیٹا پوائنٹس میں بدل جاتا ہے۔
:نتیجہ -- ڈیالا ایک علامت ہے، انقلاب کی نہیں انکشاف کی
ڈیالا کا “حمل” انسانی تاریخ کا وہ باب ہے جہاں انسان نے خود اپنے عقل کے مقابل ایک غیرانسانی عقل کو کھڑا کر دیا ہے۔
یہ واقعہ اس سوال کا آغاز ہے کہ کیا مستقبل میں انسان مشین کو کنٹرول کرے گا، یا مشین انسان کو؟ اگر ہم نے اخلاقیات کو ڈیجیٹل کوڈ میں منتقل نہ کیا، تو وہ دن دور نہیں جب ڈیالا کی “اولادیں” ہمیں ہی
obsolete
قرار دے دیں گی۔
: حرف آخر
ڈیالا صرف ایک "اے آئی " وزیر نہیں یہ انسان کی فکری و اخلاقی حدود پر لگا ہوا پہلا دراڑ ہے۔ یہ اعلان ہے کہ اب دنیا کا اگلا انقلاب انسانی ہاتھوں سے نہیں بلکہ مصنوعی ذہنوں سے لکھا جائے گا۔ اور شاید یہی وہ مقام ہے جہاں “انسان” اپنی تخلیق کے سامنے خود مخلوق بن کر رہ جائے گا۔
.jpeg)
Comments
Post a Comment