پنجاب پولیس کا عظیم الشان آپریشن، برآمدگی میں تاریخ رقم!

کہا جاتا ہے کہ دنیا کی ہر پولیس کے اپنے طریقے ہوتے ہیں۔


  کہا جاتا ہے کہ دنیا کی ہر پولیس کے الگ طریقے ہوتے ہیں۔ کوئی جرم ہونے کے بعد تفتیش کرتی ہے اور کوئی پہلے برآمدگی کرتی ہے، جرم بعد میں ڈھونڈتی ہے۔۔ پنجاب پولیس نے تو اس نظریے کو باقاعدہ "علمی شکل" دے دی ہے ۔اب جرم کی تلاش نہیں، "چیزوں کی برآمدگی" ہی مقصدِ زندگی بن چکی ہے۔

حالیہ دنوں میں پنجاب پولیس نے تحریک لبیک کے دفتر پر چھاپہ مارا۔ اور جیسے ہی اندر داخل ہوئی، تو منظر ایسا تھا جیسے کسی صدیوں پرانے خزانے کا صندوق کھل گیا ہو۔

خبر آئی: “دفتر سے خطرناک اشیاء برآمد

اب عوام حیران، کہ بھائی آخر کیا نکل آیا؟ کیا وہاں راکٹ لانچر چھپے تھے؟ کیا کسی تہہ خانے میں ایٹم بم بنا رہے تھے؟

نہیں جناب برآمدگی ہوئی ہے۔ سونے کے زیورات، غیر ملکی دستاویزات اور بھارتی کرنسی(سب سے مضحکہ خیز برآمد) دو پانی کی بوتلیں، تین ٹارچ، ایک تسبیح، اور ایک ناتمام رسید۔

(ان کے بھی ثبوت نہیں دئیے، پتا نہیں کسی نے لکھ کر ان کو دی)

پنجاب پولیس نے فوراً پریس ریلیز جاری کی:

“یہ چیزیں ملک دشمن مقاصد کے لیے استعمال ہوسکتی تھیں۔”

کوئی پوچھے حضور! اگر  تسبیح سے ریاست خطرے میں آ جائے تو پھر بچی کیا؟ قانون یا ایمان؟

 "آپریشن سندور کا نقشہ" 

اب اگر پولیس تھوڑا سا اور صبر کر لیتی، تھوڑی اور کھدائی کر لیتی، تو شاید “آپریشن سندور کا نقشہ”  بھی کامیابی سے مل جاتا۔ کیا پتا، کسی دیوار کے پیچھے سے کوئی بھاگا ہوا جاسوس نکل آتا۔

یا دفتر کے فریج سے مودی صاحب خود ٹھنڈا پانی پیتے برآمد ہو جاتے۔

لیکن جلدی اتنی تھی کہ شاید افسران کو لگا اگر ابھی نہ چھاپہ مارا تو وہ تسبیح بھی کہیں فرار نہ ہو جائے۔

پنجاب پولیس کا یہ فلسفہ قابلِ مطالعہ ہے:

“جہاں کچھ نہ ملے، وہاں کچھ خود لے آؤ۔”

اور اگر پھر بھی نہ بنے، تو میڈیا پر کہہ دو “شواہد چھپائے گئے تھے، ہم نے بازیاب کرالیے۔” یعنی اگر کسی کے گھر سے چمچ نکلے تو وہ “نیٹو سپلائی کی چوری”، اگر کتاب نکلے تو “شدت پسندی کا لٹریچر”،

اور اگر پانی کی بوتل نکلے تو “کیمیکل حملے کی تیاری”۔

 "تحریک لبیک کا جرم"

تحریک لبیک والوں کا قصور یہ ہے کہ وہ بھاگتے نہیں، چھپتے نہیں، اور ان کے ہاتھوں میں بندوق نہیں، تسبیح ہوتی ہے۔ انہیں پکڑنا آسان ہے کیونکہ وہ بھاگنے کے بجائے کہتے ہیں:

“آؤ، جو پوچھنا ہے پوچھ لو، ہم حاضر ہیں۔”

یہی تو سب سے بڑا جرم ہے نا؟ اس ملک میں جو جھوٹ بولے وہ وزیر، اور جو سچ بولے وہ زیرِ تفتیش۔

لبیک کے کارکنوں کو پکڑنے کے بعد جب ان سے تفتیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ ناشتہ بھی عوامی چندے سے کرتے ہیں۔

یہ سن کر ایک افسر نے کہا “ہاں جی، یہ تو خطرناک بات ہے ایسے لوگ تو پوری قوم کو کھڑا کرسکتے ہیں”

یعنی جس کے پاس دولت نہ ہو، مگر بات میں طاقت ہو وہ اس ریاست کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

 "پنجاب پولیس کا کمالِ فن "

پنجاب پولیس کے کمالات پر رشک آتا ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جو اگر کسی چور کو نہ پکڑ سکے تو کم از کم خود کو ضرور گرفتار کر لیتا ہے۔ فائلیں ان کی اتنی پرانی ہیں کہ کسی پرانی فائل سے نکلی دھول کو بھی "شواہد" میں شامل کرلیا جاتا ہے۔

کسی نے مذاق میں کہا:

“اگر پنجاب پولیس کے ہاتھ میں کوئی عام رومال دے دو،

تو وہ اسے بھی دہشت گردی کی دستاویز قرار دے دے گی!”

اور سچ پوچھو تو یہی ہوا۔ دفتر سے جو کپڑا برآمد ہوا،

اسے “خفیہ نشان والا جھنڈا” کہہ کر قبضے میں لے لیا گیا۔

 "تحقیق یا تخلیق؟"

تحقیق کرنا تو ایک عمل ہے، مگر پنجاب پولیس نے “تخلیق” کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔ اب وہ شواہد ڈھونڈتی نہیں بلکہ بناتی ہے۔

ایک افسر نے فخر سے کہا: “ہم نے دفتر سے کچھ غیر ملکی مواد بھی برآمد کیا ہے۔”

پوچھا گیا: “کیا چیز؟”

فرمایا: “ایک چینی موبائل چارجر۔”

پھر خود ہی بولے، “یہ ثابت کرتا ہے کہ بیرونی رابطے تھے!”

یہ وہ منطق ہے جو اگر یونیورسٹی میں پڑھائی جائے تو فلسفہ، منطق، اور عقل تینوں خودکشی کرلیں۔


 "پریس کانفرنس کا ڈرامہ"

پریس کانفرنس میں پولیس افسران کے چہروں پر وہی فخر تھا جو عام طور پر بچے کو پہلی بار “گوگل” لکھنا آ جائے تو ہوتا ہے۔

انہوں نے میڈیا کو ایک ایک بوتل، تسبیح، اور چارجر دکھاتے ہوئے کہا “یہ ملک دشمن عناصر کے قبضے سے برآمد ہوا۔”

اور ساتھ ہی کسی نے پیچھے سے کہا: “سر، وہ پانی کی بوتل تو آپ کی تھی…”

افسر صاحب بولے: “ہاں، مگر انہوں نے استعمال کی تھی!”

یعنی استعمال بھی جرم، ایمان بھی جرم، اور خاموشی بھی جرم۔

 "اگر تھوڑا اور صبر کرلیتے…"

واقعی، اگر پنجاب پولیس تھوڑا اور صبر کر لیتی، تھوڑا اور کھود لیتی، تو شاید “آپریشن سندور کا نقشہ”بھی  کامیابی سے مل جاتا۔ کیا پتا کسی کونے سے کوئی را کے افسر نکل آتا، یا دفتر کے پرنٹر سے خود مودی جی “بندے ماترم” کہتے برآمد ہو جاتے۔

کیونکہ پنجاب پولیس کے کارنامے دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ اگر وہ لائبریری میں چھاپہ مارے تو وہاں سے بھی “عالمی سازش” برآمد کرلے۔

آخر میں قوم سے گزارش ہے کہ اپنے گھروں میں احتیاط برتیں۔ کہیں آپ کے الماری میں چھپی چائے کی پتی کو بھی “خفیہ بارود” قرار نہ دے دیا جائے۔ اور اگر آپ کے گھر میں تسبیح یا قرآن ہے تو پولیس کو بتا دیں تاکہ وہ خود ہی "رضاکارانہ طور پر برآمد" کر لے۔

ورنہ اگلی باری شاید آپ کی ہو۔


تحریک لبیک کے دفتر سے برآمدگی ختم نہیں ہوئی اب پولیس والے خود دفتر سے بھی "برآمد" ہوچکے ہیں۔

بس پنجاب پولیس کو ایک ہی مشورہ ہے کہ “تھوڑا اور صبر کرلیتے، تو شاید مودی بھی نکل آتا”۔

Comments

Popular posts from this blog

ٹیکنالوجی کے پیچھے کی طاقت: کیا چین ایک نیا مہرہ ہے؟

ٹیکنالوجی انسانوں کے برتاؤ کیسے بدل رہا ہے؟