ٹیکنالوجی کے پیچھے کی طاقت: کیا چین ایک نیا مہرہ ہے؟

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ چائنہ کو مسائل میں کیوں نہیں الجھایا گیا؟



جب سے امریکی سامراجیت دنیا پر چھائی ہوئی ہے۔ اس وقت سے لے کر اب تک کوئی ملک ایسا نہیں جو جنگوں میں یا کسی دوسرے مسائل میں الجھایا نہ گیا ہو۔  کبھی داخلی مسائل میں تو کبھی خارجی جھگڑوں میں، کبھی قومی شورشوں میں تو کبھی مسلکی تعصبات میں ان کو اتنا الجھائے رکھا کہ ان کا مکمل انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا۔

مگر چائنہ کو نہیں الجھایا گیا، صرف چند چھوٹے چھوٹے مسائل میں جو کہ  ان کے اپنے تھے۔

چائنہ کو صرف ٹیکنالوجی میں لگاکر،  اس کو ٹیکنالوجیکل ترقی اتنی دی کہ آج وہ معاشی اور تعلیمی اور ٹیکنالوجی کے حساب سے دنیا کا پہلا ملک بننے جارہا ہے۔

لیکن  اصل سوال یہ ہے کہ  اس کو شورشوں سے کیوں دور رکھا گیا؟  اس میں امریکہ اور اسرائیل کے کیا فوائد ہیں؟  یا اسرائیل اس سے کون سے مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے؟


:چین ایک عالمی منصوبے کا پوشیدہ کردار

یہ سوال کہ چین کو کیوں نہیں الجھایا گیا بظاہر ایک سادہ سوال ہے مگر درحقیقت یہ پوری عالمی سیاست کے پردے کے پیچھے چھپے رازوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔  چین کو میدانِ جنگ سے دور رکھنا، اور میدانِ تجارت میں آگے بڑھانا   یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔

کیونکہ جس دنیا میں ہر ملک کو کسی نہ کسی تنازع میں دھکیلا گیا، وہاں چین کا اتنی دیر تک پرامن رہنا کسی بڑے منصوبے کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔

دیکھا جائے تو اسرائیل اور امریکہ، دونوں کی پالیسی ہمیشہ خوف کے توازن پر قائم رہی ہے۔ ایک طرف وہ مشرقِ وسطیٰ میں شورشوں کو پروان چڑھاتے ہیں

دوسری طرف ایک ایسے ملک کو پروان چڑھاتے ہیں جو ٹیکنالوجی، سرمایہ اور نگرانی کے میدان میں ان کے مفادات کو غیر محسوس انداز میں سہارا دیتا ہے۔

چین کو انہوں نے میدانِ جنگ نہیں بلکہ ڈیجیٹل میدان میں اتارا۔

اسے گولی نہیں، گیجٹ دیے گئے۔

اسے بارود نہیں، برانڈز دیے گئے۔

یوں چین کا ذہن جنگ سے ہٹا کر ترقی میں لگا دیا گیا  مگر اس ترقی کا سمت طے کرنے والے اب بھی وہی ہیں جو عالمی نظام کے پسِ پردہ بیٹھے ہیں۔

: اسرائیل کے ممکنہ مفادات

اگر ہم اسرائیل کے زاویے سے دیکھیں تو اس کے لیے چین محض ایک ملک نہیں بلکہ ایک آلہ ہے ایسا آلہ جس کے ذریعے وہ آنے والے دور میں دنیا کی معیشت، ڈیٹا اور دفاعی نظاموں پر بالواسطہ کنٹرول حاصل کر سکتا ہے۔

1. ڈیٹا کنٹرول:

آج کا زمانہ ہتھیاروں کا نہیں، معلومات کا ہے۔

چین جس طرح دنیا کے ممالک میں موبائل ٹیکنالوجی، ایپس، مصنوعی ذہانت (AI) اور سمارٹ سسٹم بھیج رہا ہے

وہ دراصل ایک عالمی ڈیٹا نیٹ ورک تشکیل دے رہا ہے۔

اسرائیل کے پاس سائبر انٹیلیجنس کا غیر معمولی نظام ہے Mossad اور دیگر ٹیک ایجنسیاں چین کے ڈیجیٹل نیٹ ورک کے اندر خاموش نگرانی کے دروازے کھول سکتی ہیں۔  یعنی، وہ چینی ٹیکنالوجی کے ذریعے باقی دنیا کی معلومات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، بغیر براہِ راست ملوث ہوئے۔

2. معاشی جال:

چین کی فیکٹریاں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ مگر ان کے خام مال، سرمایہ کاری اور لائسنسنگ کے کئی حصے ایسے بین الاقوامی نیٹ ورکس کے ہاتھ میں ہیں جن میں اسرائیلی فنڈنگ شامل ہے۔ یہ سرمایہ کاری بظاہر کاروبار ہے، مگر درحقیقت معاشی غلامی کا نرم ہتھیار ہے۔  اگر کبھی اسرائیل چاہے تو مالی دباؤ کے ذریعے چین کی سپلائی لائن میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے اور یوں ایک بڑے ملک کو چھوٹی سی کلک سے روک سکتا ہے۔

3. سائبر وارفیئر کا اشتراک:

چین نے اپنی ڈیجیٹل طاقت بڑھائی، مگر سائبر سکیورٹی کے کچھ حصے اب بھی مغربی اور اسرائیلی کمپنیوں کے الگورتھمز پر چلتے ہیں۔  اگر ان میں کسی سطح پر بیک ڈور داخل کیا گیا ہو،  تو چین کے کئی حکومتی یا دفاعی نظام خفیہ نگرانی میں آسکتے ہیں۔

یہ سازش خاموش مگر خطرناک ہے۔


: تیسری جہت: اندرونی کمزوریوں کو اُبھارنے کا کھیل

چین کی ترقی کا سب سے مضبوط پہلو اس کا نظم و ضبط ہے  مگر اسی نظم کو توڑنا ہی مستقبل کی سب سے بڑی جنگ ہو سکتی ہے۔  اسرائیل اور مغرب کی پالیسی ہمیشہ یہ رہی ہے کہ کسی قوم کو براہِ راست شکست دینے کے بجائے اس کے اندرونی خلیے کمزور کر دیے جائیں۔  چینی نوجوانوں میں فیشن، لذت، مادیت اور شہرت کی دوڑ تیز کر دی جائے۔ ان کے تعلیمی اداروں میں وہ نظریات داخل کیے جائیں جو قوم پرستی سے زیادہ خودغرضی کو بڑھائیں۔ مذہبی اور اخلاقی ڈھانچوں کو کمزور کیا جائے، تاکہ چین اپنی روح کھو دے۔ یہی وہ نرم سازش ہے جس میں گولی نہیں چلتی،  مگر قوموں کے ضمیر آہستہ آہستہ سو جاتے ہیں۔


: چوتھی جہت: بین الاقوامی کردار کی قید

چین کو ابھرتی ہوئی طاقت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، مگر اس کے گرد سفارتی دائرہ بہت سوچے سمجھے انداز میں بنایا جا رہا ہے۔ جب بھی چین کسی بین الاقوامی تنازع پر بات کرتا ہے  چاہے وہ فلسطین ہو، ایران ہو یا یوکرین   اس پر دباؤ بڑھا دیا جاتا ہے کہ وہ زیادہ سخت مؤقف نہ لے۔    یہ دباؤ کبھی اقوامِ متحدہ کے ووٹوں سے، کبھی تجارتی معاہدوں سے،  اور کبھی میڈیا کے ذریعے ڈالا جاتا ہے۔

یوں چین کی زبان پر لگام رہتی ہے وہ بول بھی نہیں سکتا، مگر خاموش بھی نہیں رہ سکتا۔   یہی وہ پوشیدہ قید ہے جسے سیاست میں "ڈیجیٹل ڈپلومیسی ٹریپ" کہا جاتا ہے۔


: پانچویں جہت: مستقبل کی بڑی چال

مستقبل میں دنیا کی طاقتیں میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت اور بایو ٹیکنالوجی کے میدان میں لڑیں گی۔ اور یہی وہ جگہ ہے جہاں اسرائیل چاہے گا کہ چین اس کی راہ پر چلے  یعنی ایک ایسی دنیا بنائے جہاں انسان کو مشین کے تابع کیا جائے،

جہاں تعلیم، علاج، ملازمت، حتیٰ کہ انسان کے خیالات تک کو ڈیجیٹل فریم میں قید کر دیا جائے۔

اگر چین اس سمت بڑھا،  تو وہ بظاہر ترقی کرے گا، مگر حقیقت میں ایک عالمی ڈیجیٹل نظام کا حصہ بن جائے گا 

جہاں آزادی، علم، اور انسانیت سب مصنوعی ذہانت کے نیچے دب جائیں گے۔


چین کا خاموش سفر بظاہر ایک کامیابی کی کہانی ہے، مگر اگر ہم تاریخ کو بار بار دیکھیں،  تو ہر کامیابی کے پیچھے ایک خفیہ قیمت ہوتی ہے۔   چین کو شورشوں سے بچایا گیا،   تاکہ اسے عالمی اقتصادی غلامی کے نرم طوق میں ڈال دیا جائے۔ اور اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوا،   تو وہ دن دور نہیں جب دنیا کی ہر معیشت —  خواہ وہ امریکہ کی ہو، چین کی یا کسی مسلم ملک کی  کسی ایک پوشیدہ مرکز کے تابع ہو گی۔

یہی وہ مرکز ہے جسے آج ہم "عالمی سرمایہ دارانہ نظام" کہتے ہیں   اور جس کے پیچھے سب سے بڑا دماغ  اسرائیلی فکری و معاشی نیٹ ورک خاموشی سے کام کر رہا ہے۔


“ہماری آنکھیں اگر کھلی رہیں، تو شاید ہم اب بھی سمجھ سکیں کہ ترقی کا ہر راستہ، اگر آزادی سے خالی ہو  تو وہ غلامی کا دوسرا نام ہے۔”

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

ٹیکنالوجی انسانوں کے برتاؤ کیسے بدل رہا ہے؟

پنجاب پولیس کا عظیم الشان آپریشن، برآمدگی میں تاریخ رقم!