کیا اکیسویں صدی میں انسان کا موت پر قابو پانا ممکن ہوسکتا ہے؟
کیا انسان موت پر قابو پاسکتا ہے؟یا آگے چل کر کوئی حل نکال سکے گا کہ جو اس کو حیات جاودانی عطا کرے؟
انسان جب سے شعور کی منزل پر پہنچا ہے اس نے دو سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے میں کہاں سے آیا ہوں؟ اور میں کہاں جا رہا ہوں؟ ان دونوں سوالوں کے درمیان جو سب سے بڑی دیوار کھڑی ہے وہ ہے ''موت''۔
ہر دور میں انسان نے موت کو سمجھنے اور اس پر قابو پانے کی کوشش کی، مگر ہمیشہ ناکامی اس کا مقدر بنی۔ لیکن اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی اور سائنس نے انسان کو یہ گمان عطا کیا ہے کہ شاید وہ اس دیوار کو گرا دے گا۔ اسی پس منظر میں یووال نوح ہراری اپنی مشہور زمانہ کتاب
"Homo Deus: A Brief History of Tomorrow"
میں ایک چونکا دینے والا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ "موت اب کوئی مقدر نہیں رہی، بلکہ ایک تکنیکی مسئلہ ہے اور جلد یا بدیر انسان اسے حل کر لے گا۔ یہ دعویٰ نہ صرف سائنس بلکہ مذہب اور اخلاقیات کے پورے نظام کے لیے ایک چیلنج بن کر سامنے آتا ہے۔
یہ مضمون اسی سوال کے گرد گھومتا ہے کہ کیا انسان واقعی موت پر قابو پا چکا ہے یا یہ محض ایک فریبِ عقل ہے؟
:ہراری کا نقطۂ نظر
یووال ہراری کا خیال ہے کہ ماضی میں مذہب نے انسان کو یہ سکھایا کہ موت فطرت کا قانون ہے اور انسان کو اس کے سامنے سرِتسلیم خم کرنا چاہیے۔ لیکن جدید سائنس نے انسان کو اس سوچ سے نکالا ہے۔ اب موت کو "ایمان کا مسئلہ" نہیں بلکہ "ٹیکنالوجی کا مسئلہ" سمجھا جاتا ہے۔ ہراری کے مطابق، جدید انسان نے تین بڑے دشمنوں کو زیر کر لیا ہے:
. ''قحط'' ''وبا'' ''جنگ''۔ (اس بات کا خود اس نے اقرار کیا ہے کہ پچھلے چند دہائیوں سے ان تینوں کو قابو کرلیا ہے یعنی موجودہ زمانے میں ہونے والے واقعات فقط اتفاقات نہیں، بلکہ طے شدہ حادثات ہیں )
اب وہ چوتھے دشمن یعنی موت کے پیچھے ہے۔
وہ لکھتا ہے کہ ''ہم اب اپنے خالق سے دعا نہیں کرتے کہ ہمیں موت سے بچائے، بلکہ ہم سائنسدانوں اور ڈاکٹروں سے امید کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ہمیشہ زندہ رکھیں۔"
ہراری کہتا ہے کہ انسان اپنی حیاتیاتی حدود سے باہر نکلنے کے لیے بایوٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، اور جینیاتی انجینئرنگ کا سہارا لے رہا ہے۔ اس کے نزدیک، اگلی صدی میں انسان خود کو اس حد تک "اپ گریڈ" کر لے گا کہ وہ ایک
"Homo Deus"
بن جائے گا جو نہ صرف بیماریوں پر قابو پائے گا بلکہ موت کو بھی شکست دے گا۔اب یہ بات کتنی درست ہے اس کا اندازہ آپ کو خود اندازہ لگانا چایئے؟
سائنس اور موت کا مسئلہ
سائنس نے واقعی انسان کی زندگی بڑھا دی ہے۔ جہاں کبھی اوسط عمر 30 سے 40 سال تھی، وہاں آج 70 سے 80 سال تک پہنچ چکی ہے۔
(حالانکہ تاریخی شواہد کی روشنی میں اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ پہلے کے زمانے میں لوگوں کی عمریں 30 یا 40 سال ہوتیں تھیں۔ بلکہ اس سے بڑی بڑی عمریں تاریخ کے اوراق میں درج ہیں۔ لیکن کیا زندگی بڑھ جانا، موت پر قابو پا لینا ہے؟
یہاں سے اصل فلسفیانہ تنازع شروع ہوتا ہے۔
1. بایوٹیکنالوجی کی حد
سائنس دان جینیاتی خلیات کے ذریعے جسم کے پرانے خلیات کو نئے بنانے پر کام کر رہے ہیں۔ کچھ تجربات چوہوں اور انسانوں پر کیے جا چکے ہیں جن میں عمر میں معمولی اضافہ ہوا۔ مگر انسان کا جسم ایک حیاتیاتی نظام ہے جس کے ہر خلیے کے اندر ایک
"expiry code"
موجود ہے۔
یہ وہ کوڈ ہے جسے سائنس ابھی تک توڑ نہیں سکی۔ یہ کہنا کہ انسان موت کو روک لے گا، ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے کہ ایک مشین کبھی بند نہیں ہوگی جب کہ مشین خود وقت کے ساتھ زنگ آلود ہو جاتی ہے۔
2. مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل شعور
ہراری کے کچھ حامیوں کا خیال ہے کہ انسان کے شعور کو ڈیجیٹل فارم میں محفوظ کر کے کمپیوٹر یا روبوٹ میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن شعور محض نیورونز کے سگنلز نہیں بلکہ احساس، ارادہ، اور روحانی شعور کا مجموعہ ہے جس کی نوعیت سائنسی نہیں بلکہ وجودی ہے۔ اب تک کوئی سائنس دان یہ سمجھنے میں کامیاب نہیں ہوا کہ "میں جو محسوس کرتا ہوں، وہ کیوں محسوس کرتا ہوں اسے
hard problem of consciousness
کہا جاتا ہے۔
لہٰذا اگر انسان اپنی یادداشت کمپیوٹر میں محفوظ بھی کر لے تو وہ زندہ نہیں ہوگا، صرف نقل ہوگا۔
فلسفیانہ و اخلاقی پہلو
اگر بالفرض انسان موت پر قابو پا بھی لے، تو کیا یہ کامیابی ہوگی یا المیہ؟ ہراری کے اپنے نظریے میں کئی تضادات موجود ہیں۔
1. اگر موت ختم ہو جائے تو زندگی کی معنویت بھی ختم ہو جائے گی، کیونکہ زندگی کی قدر اسی لیے ہے کہ وہ عارضی ہے۔
2. اگر صرف امیر طبقہ امر ہونے کی صلاحیت حاصل کرے تو دنیا میں ظلم، طبقاتی تفاوت اور استحصال کی نئی شکلیں جنم لیں گی۔
3. موت کا خاتمہ انسان کے اخلاقی نظام کو بھی توڑ دے گا، کیونکہ خوفِ موت ہی انسان کو برائی سے روکتا ہے۔
اس طرح انسان "خدا بننے" کی کوشش میں خود اپنی انسانیت سے محروم ہو جائے گا۔
مذہبی و قرآنی نقطۂ نظر
اسلامی تعلیمات کے مطابق موت کوئی خرابی نہیں بلکہ زندگی کا لازمی جزو ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
"كلُّ نَفسٍ ذائقةُ الموت" (ہر جان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔) [آل عمران: 185]
یہ آیت موت کو ایک یقینی حقیقت کے طور پر پیش کرتی ہے، جس سے فرار ممکن نہیں۔ اسلام کے نزدیک موت فنا نہیں بلکہ منتقلی ہے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں داخل ہونا۔
1. انسان کی محدودیت
قرآن میں بارہا کہا گیا کہ: "وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا" (تمہیں علم بہت کم دیا گیا ہے۔) [الاسراء: 85]
یہ آیت سائنس کی حدود متعین کرتی ہے۔ سائنس وہ علم ہے جو ظاہر کو دیکھ سکتا ہے، لیکن باطن (روح) کو نہیں۔ جب ہراری موت کو صرف جسمانی مسئلہ کہتا ہے، تو وہ روحانی جہت کو نظرانداز کرتا ہے۔
2. روح اور موت
قرآن روح کے بارے میں کہتا ہے "وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي" (وہ تجھ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔) [الاسراء: 85]
یہاں "امرِ ربی" کا مفہوم یہی ہے کہ روح کا تعلق ایسے دائرے سے ہے جس تک انسانی عقل یا سائنس کی رسائی ممکن نہیں۔
لہٰذا موت، جو روح کی علیحدگی کا عمل ہے، انسانی قابو سے باہر ہے۔
3. موت کا فلسفہ
اسلام میں موت کو مقصدِ حیات کے مخالف نہیں بلکہ تکمیلِ حیات کا حصہ سمجھا گیا ہے۔
قرآن کہتا ہے: "الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا" (جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ کون بہترین عمل کرتا ہے۔) [الملک: 2]
یہ تصور سائنس کے برعکس موت کو امتحان کا حصہ بتاتا ہے، نہ کہ خرابی۔
:سائنسی محدودیت اور روحانی حقیقت
سائنس جسم کے اندر جھانک سکتی ہے، مگر روح کے دروازے پر رک جاتی ہے۔ جب سائنس کہتی ہے کہ ہم موت کو شکست دیں گے، تو دراصل وہ جسمانی نظام کی بات کرتی ہے، نہ کہ روحانی وجود کی۔ جسم کو جتنی دیر چاہے زندہ رکھا جائے، روح کے بغیر وہ محض لاش ہے۔ اسی لیے اسلامی علما اور صوفیا نے ہمیشہ کہا کہ "موت سے بھاگنا موت سے بچنا نہیں، بلکہ زندگی سے بھاگنا ہے۔"
:فلسفیانہ ردّ
یووال ہراری کی فکر دراصل انسانی'' تکبر'' کی جدید شکل ہے۔ وہ اس قصے کو نئے انداز میں دہرا رہا ہے جہاں انسان نے علم حاصل کیا مگر غرور میں یہ بھول گیا کہ وہ خود مخلوق ہے۔ فلسفیانہ لحاظ سے اگر انسان خدا بننے کی کوشش کرے(معاذاللہ) تو یہ خدائی نہیں خودکشی ہوگی۔
کیونکہ "خدا بننے" کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی حدود مٹا دےاور حدود کے بغیر وجود خود اپنے معنی کھو دیتا ہے۔
یووال ہراری کا خیال، بظاہر سائنسی پیشرفت کی بنیاد پر مضبوط دکھائی دیتا ہےمگر حقیقت میں یہ انسانی کمزوریوں کے خوف سے پیدا ہونے والا وہم ہے۔ سائنس انسان کی عمر بڑھا سکتی ہے(جدید سائنس کی بدولت امراض کا قابو کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ سائنس نے انسان کی عمر بڑھادی، یہ خیال سراسر غلط ہے۔) مگر موت کو نہیں روک سکتی۔ ٹیکنالوجی جسم کو محفوظ رکھ سکتی ہے مگر روح کو نہیں سنبھال سکتی اسلام اور دیگر مذاہب کا پیغام واضح ہے کہ موت نقص نہیں، قانونِ فطرت ہے۔ یہی قانون زندگی کو معنویت دیتا ہے اور انسان کو اپنے خالق کے سامنے عاجزی سکھاتا ہے۔
ہراری کا
"Homo Deus"
دراصل ایک ایسا انسان ہے جو خدا بننے کی کوشش میں خود سے بیگانہ ہو گیا ہے۔ جبکہ اسلام کا "انسان" وہ ہے جو اپنی محدودیت جان کر خدا سے جڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ "انسان نے موت پر قابو نہیں پایا، بلکہ موت اب بھی انسان پر قابض ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے انسان موت سے ڈرتا تھا اب وہ اسے بھول کر خود کو خدا سمجھنے لگا ہے۔"

Comments
Post a Comment