عجیب و غریب معاشرے کی عجیب و غریب نفسیات
ہم ایک ایسے معاشرتی تجربے کے اندر جی رہے ہیں جہاں سچ چھپتا ہے اور جھوٹ فخر سے چلتا ہے۔ یہاں سوچنے والا گستاخ، اور دکھاوا کرنے والا معزز سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں کردار کی نہیں، لبادے کی قیمت ہے جہاں انسانیت کے اصول صرف تقریروں تک محدود ہیں۔
:معاشرے کی نفسیات ایک آئینہ
آج کے دور کی معاشرتی نفسیات اس سوچ پر قائم ہے کہ ظاہر ہی حقیقت ہے۔ ہم نے اخلاق کو برانڈ، اور سچ کو نعرہ بنا دیا ہے۔ اب انسان کا اصل مقصد سمجھنا نہیں، دکھائی دینا ہے۔ یہی وہ نفسیاتی تضاد ہے جو سماجی منافقت
کو جنم دیتا ہے۔ ہم سچ کی بات کرتے ہیں مگر جھوٹ کے نظام سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہم انصاف مانگتے ہیں مگر طاقت کے آگے جھک جاتے ہیں۔ ہم آزادی کے نعرے لگاتے ہیں مگر سوچ کی آزادی سے ڈرتے ہیں۔
:تضادات کا معاشرہ
یہ جدید ذہنیت ایک عجیب تضاد کا شکار ہے۔ ہم تبدیلی چاہتے ہیں مگر خود بدلنے کو تیار نہیں۔ ہم علم کی بات کرتے ہیں مگر جہالت کی تقلید کرتے ہیں۔ ہم سچ بولنے والے کو خطرہ سمجھتے ہیں اور جھوٹے کو قابلِ عزت۔ یہ سب کچھ اتفاق نہیں، بلکہ نفسیاتی غلامی ہے۔ زنجیریں اب ہاتھوں پر نہیں خیالات پر ہیں۔
:انسانی رویہ آئینہ اور الزام
ہم اکثر کہتے ہیں کہ معاشرہ خراب ہے مگر سچ یہ ہے کہ معاشرہ ہم خود ہیں۔ ہم روز جھوٹ بولتے ہیں کبھی خود سے، کبھی دوسروں سے۔ ہم نے اپنا باطن بھلا دیا ہے اور ظاہر کو اپنا خدا بنا لیا ہے۔ اب ضمیر خاموش ہے، اور دکھاوا بولتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب انسانی رویہ اپنی اصلیت کھو دیتا ہے۔
:مصنوعی اخلاقیات
آج اخلاقیات کا تعلق نیت سے نہیں، امیج سے ہے۔ جو اچھا نظر آتا ہے، وہی معتبر سمجھا جاتا ہے۔ چاہے اندر سے وہ خودغرضی، لالچ، اور حسد کا مجسمہ ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وہ سماجی تضاد ہے جو ظالم کو مسیحا، اور مسیحا کو گستاخ بنا دیتا ہے۔
:انجام کا آغاز
لگتا ہے ہم سب ایک ایسے نظام کا حصہ بن چکے ہیں جہاں انسانیت کو خطرہ کسی ٹیکنالوجی سے نہیں بلکہ خود انسان سے ہے ہم نے سچ کو خوف سے، اور ضمیر کو مفاد سے بدل دیا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ معاشرہ کیسا ہے؟ سوال یہ ہے کہ ہم کب بدلیں گے؟
یہ معاشرہ عجیب اس لیے ہے کہ ہم خود عجیب ہو گئے ہیں۔ہم نے سوچنا چھوڑ دیا، محسوس کرنا چھوڑ دیا اور سوال اٹھانا گناہ سمجھ لیا۔ جب کسی معاشرے میں سوال مر جاتے ہیں تو وہاں انسان نہیں خالی خول باقی رہ جاتے ہیں۔

Good
ReplyDelete