بلوچستان کی نئی نسل میں بیداری کیوں بڑھ رہی ہے؟ ستر سالہ وعدہ خلافیوں کی تاریخ
بلوچستان صدیوں سے خاموش سرزمین کہلاتی رہی ہے۔ یہاں کے پہاڑ گواہ ہیں کہ کتنی بار وعدے کیے گئے کتنی بار خواب دکھائے گئے اور کتنی بار ان خوابوں کو خاک میں ملایا گیا۔ مگر آج بلوچستان کی خاموشی ٹوٹ چکی ہے۔ نئی نسل جاگ رہی ہے آنکھوں میں سوال ہیں دلوں میں آگ ہے اور لبوں پر ایک ہی نعرہ ہے کہ اب مزید دھوکہ نہیں، اب مزید کسی انجانی صورت میں تم ہمیں بیوقوف نہیں بناسکتے۔
بلوچستان کی نئی نسل کی بیداری کوئی اتفاق نہیں، یہ دہائیوں کے استحصال، محرومی اور سیاسی وعدہ خلافیوں کا فطری ردِعمل ہے۔ جب ایک نسل صبر کرتی ہے دوسری سوچتی ہے مگر تیسری لڑتی ہے اور بلوچستان کی تیسری نسل اب لڑنے کے مرحلے پر پہنچ چکی ہے۔ یہ لڑائی بندوقوں کی نہیں شعور کی ہے۔
تاریخ کی چادر میں لپٹی محرومیاں جو آج کے دانشوروں کی نظروں میں نہیں آتیں
قیامِ پاکستان کے وقت بلوچستان کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا کہ اس سرزمین کے وسائل، تعلیم، اور عوام کو وفاقی نظام میں مکمل حصہ دیا جائے گا۔ مگر ہوا اس کے برعکس۔ بلوچستان کے وسائل پورے ملک کی صنعتوں، شہروں اور توانائی کے نظام کو روشن کرتے رہے مگر جن پہاڑوں سے گیس نکلی وہاں آج بھی اندھیرا ہے(خود بلوچستان کو جب سوئی سے گیا نکلی تو دو سال بعد بلوچستان کو گیس دیا گیا)۔
جن بندرگاہوں سے ترقی کے خواب بیچے گئے"اس کے نام پر موٹر ویز کسی دوسری جگہ بن رہی ہیں" وہاں آج بھی ماہی گیر اپنے روز کے رزق کے لیے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ بلوچستان کا مسئلہ ہمیشہ ترقی کا نہیں تھا انصاف کا تھا جب انصاف نہ ملے تو نفرت جنم لیتی ہے۔ اور نفرت ہی بغاوت کا سبب بنتی ہے ۔
:وعدوں کی سیاست اور دھوکے کا تسلسل
پاکستان کے قیام سے آج تک کوئی بھی وزیراعظم بلوچستان کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ بلوچستان کو مکمل خودمختاری دی جائے گی مگر وہی بھٹو حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگائی، لیڈروں کو جیلوں میں ڈالا، اور فوجی آپریشن شروع کیا۔ پھر ضیاءالحق آیا اس نے بلوچستان کو مذہب کے نام پر دبانے کی کوشش کی۔ مشرف کے دور میں ترقی کے نعرے لگے مگر ترقی کے ساتھ ساتھ غیبتیں، گمشدگیاں اور لاشیں بھی بڑھ گئیں۔ یوسف رضا گیلانی، نواز شریف،( اس نے تو ایٹمی دھماکے کے وقت کہا کہ چاغی کو ماڈل ٹاؤن بنائیں گے، مگر آج چاغی بلوچستان کے سب سے ترقی پذیر شیروں میں شامل ہوتا ہے) عمران خان، سب نے وعدے کیے کہ بلوچستان کو وہ حق دیا جائے گا جو آئین دیتا ہے۔ مگر ہر حکومت نے گوادر کو خواب کی طرح دکھایا اور حقیقت میں اسے کارپوریٹ قبضے میں دے دیا۔ مقامی لوگ آج بھی اپنے ہی شہر میں اجنبی ہیں۔ یہی وہ زخم ہیں جنہوں نے بلوچستان کے نوجوان کے دل میں بیداری کی چنگاری بھڑکائی ہے۔
:تعلیم اور شعور کا انقلاب
پہلے بلوچستان کا نوجوان سیاست سے دور رہتا تھا وہ بس روزگار کے پیچھے بھاگتا تھا۔ مگر اب منظر بدل چکا ہے۔ تعلیم اور سوشل میڈیا نے بلوچستان کے نوجوان کو وہ طاقت دی ہے جو کبھی صرف کتابوں میں تھی شعور کی طاقت۔ اب وہ سمجھتا ہے کہ اس کے وسائل کہاں جا رہے ہیں اس کے صوبے کے فیصلے کون کرتا ہے اور اس کے مستقبل پر کون قبضہ جمائے بیٹھا ہے۔ نوجوان اب کسی کے وعدوں پر یقین نہیں کرتا وہ خود تحقیق کرتا ہے خود لکھتا ہے خود بولتا ہے۔ اور نتائج آپ کے سامنے ہیں کہ ان حقوق مانگنے والوں کے ساتھ کیا سے کیا کیا جارہا ہے؟
بلوچستان کی یونیورسٹیوں، لائبریریوں اور آن لائن فورمز میں آج وہ بحثیں ہورہی ہیں جو کبھی صرف خفیہ محفلوں میں ہوتی تھیں۔
یہ بیداری اب کسی ایک شہر یا قبیلے تک محدود نہیں یہ تربت سے خضدار تک، گوادر سے نوشکی تک ہر دل میں اتر چکی ہے۔
جب ظلم اپنی حدود عبور کرے تو پھر نفرت ادب اور شاعری میں بیداری کا ظہور لے کر آتا ہے
بلوچستان کا شاعر اب صرف محبت کی بات نہیں کرتا، وہ احتجاج لکھتا ہے۔ اس کی نظموں میں درد نہیں سوال ہیں اس کی غزلوں میں جدائی نہیں انقلاب ہے وہ کہتا ہے:
میں باغی ہوں میرا مسئلہ بغاوت ہے
ان تتلیوں کی باتیں مجھ سے نہ کریں
یہی لہجہ اب بلوچستان کے نوجوان کا لہجہ ہے وہ کسی کا دشمن نہیں مگر وہ اپنے حق کا طالب ضرور ہے۔
:ریاستی رویہ اور نوجوان کا ردعمل
ریاست نے جب بھی بلوچستان کے نوجوان کو سوال کرتے دیکھا اسے غدار کہہ دیا مگر اب نوجوان کو یہ القاب نہیں ڈراتے وہ جانتا ہے کہ جو خاموش رہا وہ مٹ گیا اور جو بولا وہ زندہ ہے۔بلوچستان کے نوجوان اب صرف احتجاج نہیں کر رہے، وہ متبادل سوچ پیدا کر رہے ہیں۔ وہ اپنے گاؤں، تعلیمی اداروں، اور آن لائن دنیا میں اپنی آواز پھیلا رہے ہیں۔
ریاست کے پاس وسائل ہیں مگر اب بیانیہ نوجوان کے پاس ہے
یہ بیانیہ اب صرف “حق دو” کا نہیں، بلکہ “سوچ بدلو” کا ہے۔بلوچستان اور وعدہ خلاف حکمرانوں کا احتساب آج جب ہم پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہر دور میں بلوچستان کے حوالے سے وعدے کیے گئے لیکن کسی نے ان وعدوں کی تکمیل کے لیے عملی اقدامات نہیں کیے یہ فہرست لمبی ہے لیاقت علی خان سے لے کر عمران خان تک، ہر وزیراعظم بلوچستان کے عوام کے سامنے آیا، ان کے دکھ سنے، مگر پھر چپ چاپ چلا گیا۔
ان میں سے کوئی ایک بھی اپنی مدت کے آخر تک بلوچستان کے کسی دور دراز ضلع میں بنیادی سہولیات فراہم نہ کر سکا۔ کوئی اسپتال مکمل نہ ہوا، کوئی یونیورسٹی اپنے وعدے کے مطابق نہیں بنی، کوئی روزگار اسکیم مکمل نہ ہوئی۔ یہ مسلسل وعدہ خلافیاں اب نسلوں میں منتقل ہوچکی ہیں، اور یہی بیداری کی اصل جڑ ہے۔
:بیداری اب ایک سوچ ہے، جذبات نہیں
بلوچستان کی نئی نسل اب صرف غمزدہ نہیں وہ منظم ہے(اور میرے اندازے کے مطابق اگر ابھی بلوچیوں کو کوئی قومی سربراہ مل گیا تو بلوچستان میں انقلاب کوئی بھی نہیں روک سکتا) اس کے پاس کتاب ہے، قلم ہے، اور دلیل ہے۔ وہ اب سڑکوں پر نعرے نہیں لگانا چاہتی، بلکہ نصاب میں تبدیلی چاہتی ہے وہ سمجھتی ہے کہ مسئلہ بندوق کا نہیں فہم کا ہے۔
بلوچستان کے نوجوان اب اپنی شناخت سے شرمندہ نہیں، بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں۔ وہ اسلام، بلوچیت، اور انسانیت تینوں کے درمیان توازن چاہتے ہیں۔ یہ بیداری کسی تنظیم کا ایجنڈا نہیں، یہ ایک فطری عمل ہے۔
: ایک نیا بلوچستان جنم لے رہا ہے
بلوچستان کی نئی نسل اب صرف ماضی کی غلطیوں پر ماتم نہیں کر رہی، وہ مستقبل تراش رہی ہے یہ نسل اب وعدوں پر نہیں، کارکردگی پر یقین رکھتی ہے یہ نسل اب کسی کے سائے میں نہیں جینا چاہتی، بلکہ اپنے سایے خود بنانا چاہتی ہے۔
بلوچستان کی بیداری اب ناقابلِ واپسی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے یہ نسل اب وہ نسل ہے جو کسی کے کہنے پر نہیں، اپنے ضمیر کی آواز پر چلتی ہے۔ اگر ریاست نے اب بھی سنجیدگی نہ دکھائی تو یہ بیداری کسی بڑے طوفان میں بدل سکتی ہے۔ مگر اگر اسے سمجھا گیا، عزت دی گئی، اور اعتماد دیا گیا تو یہی نوجوان پاکستان کی بقا کی ضمانت بن سکتا ہے بلوچستان کی نئی نسل جاگ چکی ہے اب وہ وعدوں سے نہیں بہلے گی، اب وہ صرف انصاف مانگے گی اور جب کسی قوم کا نوجوان انصاف مانگنے لگے تو سمجھ لو کہ انقلاب دستک دے چکا ہے۔
: بلوچ نوجوانوں شعور کے حوالے سے شائع ہونے والے سرویز
ایک مطالعہ
“Pakistan Journal of Social Research”
میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان کے نوجوان سیاسی معاملات میں نسبتاً “بہت زیادہ شعوری” ہیں، یعنی ان میں سیاسی شعور اور شرکت کی خواہش قابلِ ذکر ہے۔
ایک سروے
“Pakistan Journal of International Affairs”
کے تحت
Lasbela University of Agriculture Water & Marine Sciences
(بلوچستان) کے طلبا میں سوشل میڈیا استعمال اور معاشرتی / سیاسی شعور کے درمیان مضبوط تعلق ملا۔

Comments
Post a Comment