بلوچستان پر برطانوی پارلیمنٹ کی قرارداد انسانی ہمدردی یا سامراجی سیاست؟



جب کسی ملک کے اندر کے زخم سڑنے لگیں اور مرہم کی جگہ مزید زخم لگائے جائیں تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ درد سرحدوں سے باہر محسوس ہونے لگتا ہے۔ حالیہ دنوں برطانوی پارلیمنٹ میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جو قرارداد پیش کی گئی ہے وہ اسی درد کی ایک علامت ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی بلوچستان کے عوام کے لیے ہمدردی ہے، یا ایک نئی سامراجی بساط کا حصہ؟

برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی قرارداد کو اگر ظاہری آنکھ سے دیکھا جائے تو مقصد انسانی حقوق کی بحالی، انصاف، اور ریاستی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانا نظر آتا ہے۔ مگر اگر تاریخ کی آنکھ سے دیکھا جائے تو یہ وہی پرانی روش ہے  جہاں عالمی طاقتیں مظلوم قوموں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بہانے اپنے مفادات کی سوئی چبھو دیتی ہیں۔

یہ سوال اپنی جگہ پر کھڑا ہے کہ ایک غیر ملکی پارلیمنٹ کسی خودمختار ملک کے اندرونی معاملات پر بات کیوں کرتی ہے؟

کیا ان کے اپنے ملک میں مظلوم قومیں ختم ہو گئی ہیں؟                اب ذرا خود برطانیہ پر نظر ڈالی جائے۔

کیا وہاں سب کچھ واقعی اتنا مثالی ہے جتنا وہ دوسروں کے لیے دکھاتے ہیں؟ کیا ان کی اپنی گلیاں انصاف، برابری، اور سکون سے بھرپور ہیں؟ کیا ان کے معاشرے میں ہر طبقہ، ہر نسل، اور ہر عقیدہ یکساں عزت سے جیتا ہے؟ آج لندن کی سڑکوں پر بے گھری  منشیات، ذہنی بیماری، اور نسلی امتیاز کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ ان کا اپنا معاشرہ اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہے جہاں انسان مشین بن گیا ہے اور روح صرف وجود کا بوجھ اٹھائے پھرتی ہے جب اپنے گھر کا دیا بجھ جائے تو دوسروں کے زخموں پر روشنی ڈالنے کا کیا مطلب؟

یہ وہی تضاد ہے جس پر دنیا کی سیاست آج کھڑی ہے  ظاہر میں خیرخواہی، باطن میں مداخلت یا پھر انہیں بلوچستان کے نام پر کوئی نیا جغرافیائی یا سیاسی کھیل کھیلنے کا موقع نظر آ رہا ہے؟

بلوچستان کا درد نیا نہیں۔ دہائیوں سے یہاں کے لوگ محرومی، وسائل کی غیر مساوی تقسیم، اور جبری گمشدگیوں کے سائے میں جی رہے ہیں یہ وہ زخم ہیں جنہیں وقت نے نہیں، غفلت نے گہرا کیا ہے جب اپنے ملک میں انصاف کی کھڑکیاں بند کر دی جائیں، تو مظلوم اپنی آواز باہر کی دیواروں سے ٹکرا دیتا ہے یہی وہ لمحہ ہے جب بیرونی طاقتیں "انسانی حقوق" کے نام پر میدان میں اترتی ہیں، مگر ان کی نظر ہمیشہ درد پر نہیں، موقع پر ہوتی ہے۔

برطانوی پارلیمنٹ کی اس قرارداد سے سب سے زیادہ خوش وہ لوگ ہیں جو پاکستان کے اندرونی استحکام سے خوف زدہ ہیں اور سب سے زیادہ دکھی وہ ہیں جو بلوچستان کو پاکستان کے جسم کا وہ حصہ سمجھتے ہیں جسے صرف محبت، انصاف، اور مساوات سے جوڑا جا سکتا ہے  نہ کہ قراردادوں اور عالمی سیاست کے ہتھیاروں سے۔

بلوچستان کے مسائل کسی لندن یا واشنگٹن کے ایوان میں نہیں بلکہ کوئٹہ، خضدار، گوادر، تربت، اور سبی کے گلی کوچوں میں حل ہونے چاہئیں جہاں انصاف صرف کتابوں میں نہیں، زندگی میں نظر آئے جہاں کسی ماں کو اپنے بیٹے کی واپسی کے لیے غیر ملکی ایوان کی قراردادوں کا انتظار نہ کرنا پڑے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی ملک کے اندرونی معاملات میں بیرونی طاقتوں نے "ہمدردی" کے نام پر قدم رکھا نتیجہ تباہی، تقسیم، اور افراتفری کے سوا کچھ نہیں نکلا۔

عراق، شام، افغانستان، لیبیا سب اس کے جیتے جاگتے ثبوت ہیں۔

:تاریخ کی گواہیاں  اور حقائق جب ہمدردی کے نام پر ظلم کیا گیا

 جلیانوالہ باغ (1919)  جہاں انسانیت کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا

امرتسر کے ایک بند باغ میں ہزاروں بے گناہ لوگ جمع تھے — کسی کے ہاتھ میں ہتھیار نہیں، صرف امید تھی اور تب برطانوی جنرل ڈائر نے حکم دیا فائر کرو چند لمحوں میں زمین خون سے سرخ تھی عورتیں بچوں کو ڈھانپ رہی تھیں، مگر گولیاں ان کے جسموں کو کاٹ رہی تھیں کہا گیا "نظم و ضبط قائم کیا گیا" مگر درحقیقت انسانیت کا گلا کاٹا گیا۔

یہی وہ “تہذیب” ہے جو آج بھی دوسروں کے زخموں پر مرہم رکھنے چلی ہے؟؟؟


:ایران (1953)  جب تیل پر قومیت جرم بن گئی

ایران کے وزیرِ اعظم محمد مصدق نے اعلان کیا کہ ملک کا تیل اب صرف ایران کا ہوگا، لندن کا نہیں یہ بات برطانیہ اور امریکہ کو برداشت نہ ہوئی اور چند ہی ہفتوں میں سی آئی اے اور ایم آئی 6 نے سازش کر کے اس عوامی حکومت کو الٹ دیا۔ کہا گیا “جمہوریت کو بچایا جا رہا ہے” مگر دراصل جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا۔ یہی وہ “انسانی حقوق” ہیں جنہیں بڑی طاقتیں اپنی مرضی کے وقت یاد کرتی ہیں۔


 کینیا (1950s تہذیب کے نام پر قید خانے اور کوڑوں کا نظام

افریقہ کی سرزمین پر آزادی کا نعرہ بلند ہوا تو برطانیہ نے 

"Mau Mau" 

بغاوت کو کچلنے کے لیے ہزاروں بے گناہ کسانوں، عورتوں، اور نوجوانوں کو قید کیا انہیں تشدد، بھوک، اور ذلت کے شکنجوں میں رکھا گیا کہا گیا “ہم امن قائم کر رہے ہیں” مگر حقیقت یہ تھی کہ انسانوں کو جانوروں کی طرح توڑا جا رہا تھا یہی وہ تہذیب تھی جو آج بھی “انسانی وقار” کا درس دیتی ہے۔


: عراق (2003)  آزادی کے نام پر آگ برسائی گئی

کہا گیا کہ عراق میں "جمہوریت لائی جا رہی ہے" اور "عوام کو آمر سے نجات دی جا رہی ہے" پھر ٹینک آئے، بم گرے، بچے جلے، اور لاکھوں زندگیاں راکھ ہو گئیں تیل کے کنویں سلامت رہے مگر قوم ختم ہو گئی۔ یہ آزادی نہیں تھی یہ آگ کے بیچ دفن کی گئی قوم تھی یہ وہی “انسانی ہمدردی” تھی جو ہمیشہ تیل، تجارت، اور طاقت کے گرد گھومتی ہے۔


: لیبیا (2011)  نیٹو کے جہاز، معصوموں کی لاشیں

کہا گیا کہ "ہم ایک ظالم سے قوم کو بچا رہے ہیں" اور پھر آسمان سے آگ برسی لیبیا کے شہر ملبے میں بدل گئے، بچے لاشوں کے نیچے دبتے رہے،اور وہ ملک جو کبھی افریقہ کا سب سے خوشحال ملک تھا اب خانہ جنگی، دہشت، اور غلامی کا اڈہ بن گیا۔

یہ تھی “مہذب دنیا” کی انسانیت  جو پہلے مارتی ہے پھر دعویٰ کرتی ہے کہ "ہم نے نجات دی"۔


6. افغانستان  جہاں امن کے نام پر نسلیں ختم ہو گئیں

چالیس برسوں سے ہر طاقت افغانستان میں “امن” کے نعرے کے ساتھ اتری اور ہر بار امن کے بجائے لاشوں کے ڈھیر چھوڑ گئی۔سوویت نے قبضہ کیا، امریکہ نے آزادی دی  اور دونوں نے ہی زمین سے زیادہ انسانوں کو دفن کیا۔ یہ ہے عالمی سیاست کی وہ “دینی کتاب”جس کے ہر صفحے پر خون سے لکھا ہے طاقت جب بولتی ہے، انصاف خاموش ہو جاتا ہے


کیا یہ قرارداد ہمدردی ہے  یا حکمرانی ہے ؟

تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ بڑی طاقتیں جب کسی مظلوم کے لیے روتی ہیں تو ان کے آنسو پانی نہیں، تیزاب ہوتے ہیں  جو زخموں کو بھرنے کے بجائے اور گہرا کرتے ہیں بلوچستان کے لیے جو قراردادیں آج پیش ہو رہی ہیں وہ کل  کو کسی نئے کھیل، کسی نئی غلامی اور کسی نئے “تہذیبی حملے” کی شروعات بن سکتی ہیں۔

بلوچستان کے نام پر اگر کوئی قرارداد پیش ہوتی ہے تو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا یہ ہمارے زخموں پر مرہم ہے یا کسی نئی سامراجی سازش کی تیاری؟

اب فیصلہ بلوچستان کے عوام کو کرنا ہے کہ وہ اپنی تقدیر کی لکیر غیروں کے ایوانوں میں کھینچوانا چاہتے ہیں یا اپنے ہاتھوں میں پکڑنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ قومیں تب بدلتی ہیں جب وہ دوسروں کے

 فیصلوں پر نہیں، اپنے ضمیر پر یقین کرتی ہیں۔


Comments

Popular posts from this blog

ٹیکنالوجی کے پیچھے کی طاقت: کیا چین ایک نیا مہرہ ہے؟

ٹیکنالوجی انسانوں کے برتاؤ کیسے بدل رہا ہے؟

پنجاب پولیس کا عظیم الشان آپریشن، برآمدگی میں تاریخ رقم!